یہ
ایک کائناتی سچ ہے کہ مرد و زن میں جنس مخالف کی کشش کا قدرتی سبب انسانی
فطرت میں جنسی تعلق کیلئے فطری رغبت ہے۔ سو لذتِ گناہ تک جائز یا ناجائز
رسائی کیلئے بیتاب لوگ جنسی ہوس سے مجبور ہو کر گناہِ بے لذت کی راہیں تلاش
کرتے رہتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ شیر چیتوں یا برفانی ریچھوں کی طرح ایسے
ذی روح بھی اپنے اپنے مخصوص علاقوں ہی میں پائے جائیں۔ جنسی جنون کے مریض
مشرق تا مغرب، کہیں کم کہیں زیادہ، لیکن ہر جاہ پائے جاتے ہیں۔ یہ الگ بات
ہے کہ فیصل آباد میں انٹر نیٹ سے کلی نابلد ان پڑھ پینڈو کے ہاتھ کوک
شاستر کی کتاب یا عریاں تصاویر سے مزین تاش کے چار یکے ہی آ جائیں تو اس کا
دل بہل جاتا ہے۔ جبکہ واشنگٹن
میں بیٹھا وائٹ ہاؤس کا بڈھا جرنیل انٹر نیٹ پر بیٹھا اپنی نوعمر گرل
فرینڈ سے براہ راست رنگین معاشقے کا لطف اٹھا لیتا ہے۔ گذشتہ دو تین برس
سے شیشے کے گھر میں بیٹھے اہلیان مغرب اوران کے روشن خیال اندھیرے حواریوں
کی جانب سے پاکستانی معاشرے کو ازحد جنسی ہوس کا شکار ثابت کرنے اور
کوسنے کا بے ہنگم شور جاری ہے۔ مزے کی بات یہ کہ ایسے” شریف زادوں” میں سب
سے آگے یورپ کی گوری گود کی پناہ میں بیٹھے اس آنجہانی ٹھرکی بابے مرزا
قادیانی کے گستاخین اسلام پیروکار ہیں جو محمدی بیگم نامی حسینہ کےعشق میں
سلگ سلگ کرجیا اور سسک سسک کر جہنم کو سدھارا۔ یاد رہے کہ مغرب کے ان لاڈلے
مہمان قادیانیوں کو یورپی سوشل سیکورٹی فنڈ کی مد سے اتنی بخشش مل جاتی ہے
کہ یہ فکر روزگار سے کلی بے بیاز رات دن نیٹ پر بیٹھے قرآن و رسالت کی
توہین اور ارض پاک کے خلاف زہر بکتے رہیں۔ امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ سمیت
تمام صلیبی ممالک میں پناہ گزین قادیانی گروہ کے فحش اور گھناؤنے کردار کے
بارے سچے حقائق لکھنے والے کچھ مغربی مبصرین اور خاص طور پر وہاں مقیم
مسلمان گواہ ہیں کہ قادیانی خواتین قحبہ خانون اور سیکس کلب کے کاروبار
میں گوری مٹیاروں سے بھی سات ہاتھ آگے ہیں۔ ان شاتمین دین و ملت کو سیکولر
خیال ادبی مسخروں، چند ننگِ دیس بلاگروں،عالم فاضل جاپانی بندروں اور کچھ
دیسی مرغی ولائیتی انڈا برانڈ خنزیرخوروں کی ” خامخواہ ” میں ملنے والی
غیبی کمک اور معاونت بھی حاصل ہے۔ ان کے بعد پاکستانیت اور مسلم معاشرت کے
بارے من گھڑت انفارمیشن پھیلانے یا بے جا تنقید کرنے والے وہ ماد پدر آزاد
روشن خیال ہیں جو مغرب پرستی میں مغرب سے آگے نکلنے کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔
سو اپنے صلیبی آقاؤں کی مقدس تقلید ان کا فرض اولین ہے۔ مغرب کے نام نہاد
مہذبین اور شاہ سے بڑھ کر شاہ کے مصاحب لبرل مسخروں کے مطابق دنیا کی عریاں
ترین اور فحش خیال مخلوق بس ایک ہم پاکستانی قوم کے لوگ ہی ہیں۔ لیکن اپنی
ان خود ساختہ انفارمیشنز اور بیجا الزام تراشیوں کو ثابت کرتے ہوئے یہ
لوگ، دنیا بھر کے فلسفے، منطق اور دلیل کے سہروں کے ساتھ اکثر ایسی بھونڈی
کوشش کر بیٹھتے ہیں جو ازخود انہیں کاذب، بدنیت اور اسلام دشمن مسخرے
ثابت کر دیتی ہے۔
احباب ایسے اسلام دشمن عناصر کو پہلے بھی
کچھ اہل ایمان بلاگرز حقائق کا آئینہ دکھاتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک
اردو بلاگر محمد اسد صاحب اپنے بلاگ “ بلا عنوان ”
میں لکھتے ہیں۔” ایسے ہی لوگوں کی ترجمانی 13 جولائی 2010ء کو فوکس نیوز
میں چھپنے والے مضمون میں سامنے آئی کہ جس میں پاکستان کو انٹرنیٹ استعمال
کرنے والے ممالک میں سب سے زیادہ غیر اخلاقی الفاظ سرچ کرنے والا ملک قرار
دیا۔ اس مضمون کی مصنفہ کیلی مورگن کے بقول “پاک کہلانے والا ملک دراصل
ناپاک الفاظ کے سرچ کرنے والوں میں پہلے نمبر پر ہے”۔ ہمارے ساتھی بلاگر
حماد ڈار کے بلاگ پر مضمون کے جواب میں تحریر شائع ہوئی جس میں فوکس نیوز
کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کا جواب دیا گیا ہے۔ آج فوکس نیوز ڈاٹ
کام پر پاکستان کے متعلق ایک مضمون شائع ہوا جس میں پاکستان کو پورنستان
قرار دیتے ہوئے سرچ انجن میں غیر اخلاقی مواد ڈھونڈے والے ممالک میں
سرفہرست قرار دیا گیا ہے۔ فوکس نیوز نے جن مخصوص الفاظ کی نشاندہی کی ہے،
یقیناَ وہ نہ تو جعلی ہیں اور نہ ہی غلط۔ میں اس سے انکار نہیں کررہا کہ
یہ الفاظ پاکستان میں سرچ نہیں کیے جاتے ہیں اور نہ ہی اس بات سےانکار ممکن
ہے کہ ” پورن ” کا لفظ پاکستان میں کافی معروف ہو چکا ہے۔ لیکن میں فوکس
نیوز کے اس الزام کی نفی اور سخت مذمت کرتا ہوں کہ پاکستان میں انٹرنیٹ
استعمال کرنے والے دنیا بھر میں غیر اخلاقی مواد ڈھونڈنے والی اقوام میں
سرفہرست ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے اپنی اس تحریر میں ثبوت کے طور پر کچھ
لنکس بھی فراہم کئے مگر ڈھیٹ عناصر کی طرف سے ضدی حملوں کا سلسلہ وقفے
وقفے سے جاری رہا۔
افسوس کہ پاکستانی قوم پر ایسے ہی بیہودہ
الزامات اور خود ساختہ انفارمیشنز کا سلسلہ آج کل پھر شروع ہے۔ سو ان کی ڈس
انفارمیش اورجھوٹ کا پردہ چاک کرنے کیلئے کچھ حقائق سے پردہ اٹھانے کا حق
ہم بھی رکھتے ہیں۔ مغربی پریس اور مغرب پرست روشن خیال مسخروں کا کہنا ہے
کہ گوگل سرچ پر سیکس اور سیکسی تصاویر تلاش کرنے والوں میں پاکستان پہلے
نمبر پر ہے۔ لیکن یہ فاروق درویش نہیں بلکہ آج کی تاریخ 9 مارچ کا گوگل سرچ
ٹرینڈ کا ہی رزلٹ بتا رہا ہے کہ سیکس پر مبنی مواد کی تلاش کرنے والے دس
شہروں میں ٹاپ فائیو سمیت چھ سات نمبرز ہمیشہ ممبئی، چنائی، پونا، بنگلور،
نیو دہلی، چندی گڑھ اور کولکتہ جیسے جدید بھارتی شہریا لندن، نیویارک اور
سڈنی وغیرہ ہوتے ہیں۔ احباب یہ بات دھیان میں رہے کہ پاکستان میں بھی مغربی
تہذیب کے دلدادہ مادر پدر آزاد روشن خیال بستے ہیں سو ٹاپ فائیو ممالک یا
ٹاپ ٹین شہروں میں کبھی کبھار لاہور، کراچی یا اسلام آباد بھی آتے رہے ہیں
لیکن ان کا نمبر ہمیشہ سیکس کرائم کے دیش بھارت اور
چار پانچ بھارتی شہروں کے بعد ہی آتا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سیکس
سرچ ممالک میں ( گذشتہ دو سال سے ) سری لنکا ٹاپ پر ہے۔ اس حوالے سے
پاکستان کے ایک مستند اخبار کے مطابق سیکس سے متعلق سب سے زیادہ تجسس سری
لنکا میں پایاجاتاہے۔ حوالے کے طور پر “ اخبار روزنامہ ایکسپریس نیوز کا یہ لنک پیش کر ہا ہوں۔
جو ہمارے روشن خیالوں کا یہ نظریہ بھی غلط ثابت کرتا ہے کہ سیکس سرچ کرنے
والے صرف کم تعلیم یافتہ لوگ ہوتے ہیں، یاد دلاتا چلوں کہ سری لنکا کی
تعلیمی میدان میں ترقی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں شرح
خواندگی سو فیصد ہے۔ سیکس سرچ کے حوالے سے تازہ ترین چارٹ کی فوٹو گراف دے
رہا ہوں۔
اس لنک پر گوگل سیکس سرچ آن لائن ٹرینڈ رزلٹ کی
سائٹ حاضر ہے اگر کوئی صاحب میری ان باتوں کی تصدیق اور پاکستان دشمن
عناصر کے جھوٹے دعووں کا کذب ملاحظہ کرنا چاہیں تو اس سائٹ پر میپ اور لسٹ
میں سے لسٹ سلیکٹ کریں اور نیچے بائیں طرف سے ملک یا شہر سلیکٹ کر کے تازہ
ترین رزلٹ سے جانکاری حاصل ہو سکتی ہے۔ احباب میں آغاز میں یہ عرض کر چکا
ہوں کہ جنسی رغبت انسان کی فطرت میں موجود ہے سو پاکستان میں سیکس کے بارے
مواد تلاش کرنے والوں کا ہونا کوئی انوکھی بات نہیں۔ لیکن ہر بار پاکستان
کے نمبر ون پوزیشن پر ہونے کا جھوٹا پراپیگنڈا کرنے والے مغربی گماشتے
اپنے مغربی آقاؤں کی شیطانی تہذیب کی
غلاظت آلودہ چہرے پر کیوں کر پردا دال پائیں گے۔ پاکستانی قوم کی کردار
کشی میں من گھڑت ریکارڈز اور بد نیتی پرمبنی جھوٹے دعوے کرنے والے مغرب کے
مامے یہ حقیقت کیسے جھٹلا پائیں گے کہ یورپ کی ہر دوسری ماں کی گود میں
گناہ کی نشانی ایسا ناجائز بچہ ہوتا ہے جس کے باپ کا کوئی اتہ پتہ ہی نہیں
ہوتا۔ مغربی بغل بچوں کو یاد دلاتا چلوں کہ مغربی پریس کے مطابق صرف
برطانیہ میں ہی ایسے بچوں کی تعداد انتیس لاکھ اور امریکہ میں بیس لاکھ غیر
شادی شدہ جوڑوں کے ہاں پیدا ہونے والے ناجائز بچوں کی تعداربرطانیہ میں
اکتالیس اور امریکہ میں تنتیس فیصد ہے۔ برطانیہ میں طلاق کا تناسب اکاون
اور امریکہ میں پچاس فیصد ہے۔ طلاق کی وجہ سے لاوارث ہوجانے والے بچوں کی
تعداد برطانیہ میں ایک لاکھ سنتالیس ہزار ہے جبکہ امریکہ میں دس لاکھ ہے۔
مہذب مغرب کے نام لیواؤں کیلئے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ برطانیہ میں ایک
لاکھ 75 ہزار خاندانوں میں نوے فیصد مائیں ہیں جبکہ باپوں کا تناسب صرف دس
فیصد ہے۔ ان مین سے نصف خاندان انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہیں۔
امریکی سامراج کے غلاموں کو شاید یہ جان کر بھی شرم نہ آئے کہ امریکہ میں
ایک کروڑ دس لاکھ افراد بنا کیسی شادی کے لڑکیوں کے ساتھ رہ کر ناجائز بچے
پیدا کرتے ہیں۔ مذید یہ کہ ان میں سے 12لاکھ افراد اس حد تک غلاظت آلودہ
اور پلید الفطرت ہیں کہ اعلانیہ ہم جنس پرست ہیں۔ خود
مغربی رائٹروں کے مطابق امریکہ اور مغرب بڑی تیزی سے سیکس کی پلید ترین
حالت یعنی اپنی ہی بہن، بیٹی ساتھ مبینہ جنسی تعلقات یعنی فیملی سیکس کی لعنت کا
شکار ہو رہا ہے۔ مغربی تہذیب کے دلدادہ روشن خیال اور مغربی گود میں بیٹھے
اسلام دشمن قادیانی زندیق مغربی تہذیب کے اس روشن خیال ملک ہالینڈ کے
احوال بھی لکھیں جہاں ناجائز بچے پیدا کرنے والی ماؤں میں چالیس فیصد سے
زائد اپنے ہی باپ یا بھائی کے بدترین گناہ کی نشانیاں پال رہی ہوتی ہیں۔
بلاشبہ ساری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی
جنسی ہوس کا شکار ایسی نئی نسل رہتی ہے جو انٹر نیٹ پر سیکس سرچ کرتی رہتی
ہے۔ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ مغربی تہذیب کی عریاں روشنی اور بھارتی میڈیا
کی ثقافتی یلغار سے متاثر پاکستانی لوگ بھی گناہِ بے لذت یا لذت گناہ کی
تلاش میں گوگل اور دوسرت سرچ انجنوں پر گھومتے پھرتے ہیں۔ اس حوالے سے”
سیکس ” کی تلاش کے خود ساختہ رزلٹ شائع کر کے پاکستان اور پاکستانی قوم کو
بدنام کرنے والے سامراجی، مغربی، قادیانی، برہمن اور ان کے تمام بغل بچے
اپنے مکروہ پراپیگنڈا میں سدا ناکام ہوئے سو انشاللہ اب بھی نامراد ٹھہریں
گے۔ لیکن گذشتہ دس برس سے لفظ اللہ، قرآن، محمد، اسلام، مکہ، مدینہ اور
اسلامی نظریات کو سرچ کرنے والوں میں ہمیشہ پاکستان کا پہلا نمبر یہ اعلان
کر رہا ہے کہ۔۔۔ الحمد اللہ مغرب کے پراگندے معاشرے، امریکہ کی تعفن آمیز
اور عریاں روشن خیالی اور ھندوآتہ کی مکروہ و پلید سوسائٹی سے میرا دیس اور
میرے دیس کے لوگ ہزار درجہ نہیں کروڑوں درجہ بہتر ہیں ۔۔۔۔ پاکستان زندہ
باد ۔۔۔۔ فاروق درویش
No comments:
Post a Comment